لوکل گورنمنٹ ایکٹ، پی پی حکومت کی تبدیلیوں کے اثرات

لوکل گورنمنٹ ایکٹ، پی پی حکومت کی تبدیلیوں کے اثرات

سال 2010 میں جب مشرف کے نظام کا سورج غروب ہوا، ایم کیو ایم کے زیر انتظام چلنے والی سٹی گورنمنٹ کے مالی حالات کافی خراب تھے۔ اب نظام پی پی پی کے پاس تھا لہذا اس نے شہر کے پرانے انتظامی امورکو تبدیل کرنے کیلئے قوانین بنانا شروع کردیے۔

مشرف دور میں کراچی کے 18 ٹاؤنز تھے، پی پی نے فیصلہ کیا کہ ان ٹاؤنز کے بجائے کراچی میں اب 6 اضلاع ہوں گے۔ ناظم آؤٹ ہوئے اور میئر اِن ۔ اسی طرح ڈی سی اوز اور ای ڈی اوز بھی ختم ہوئے اور کمشنرز واپس آگئے۔
سندھ حکومت سال 2010 سے اب تک مقامی حکومتوں کے حوالے سے 20 بار قانون سازی کرچکی ہے ۔ ترامیم کے علاوہ نئے قوانین بھی بنائے گئے ۔ درج ذیل چارٹ ان قوانین اور ہر ایک میں کی جانے والی تبدیلیوں کو واضح کرتا ہے

Date of PassingTitle of lawMajor changes made
15 Feb 2010Sindh Local Govt (Amendment) Act, 2010Dissolves Musharraf’s 2001 law, kicks out nazims, says administrators will run the show until elections. Says request ECP in a month
26 March 2010Sindh Local Govt (Second Amendment) Act, 2010Specifies administrators should be grade 19+
26 March 2010Sindh Local Govt (Third Amendment) Act, 2010Specifies elections should be requested in 2.5 months
5 June 2010Sindh Local Govt (Fourth Amendment) Act, 2010Extends request to ECP to hold elections in 6mths instead, extends to 9mths deadline for elections
28 Sept 2010Sindh Local Govt (Fifth Amendment) Act, 2010Scraps deadlines and says when the govt feels like holding elections
13 July 2011Sindh (Repeal of Sindh Local Govt Ord, 2001 and Revival of Sindh Local Govt Ord, 1979) Act, 2011Brings back 1979 system
1 Oct 2012Sindh Peoples Local Govt Act, 2012Bring back some shape of 2001 system under MQM pressure
21 February 2013Sindh (Repeal of Sindh Peoples Local Govt Act, 2012 & Revival of Sindh Local Govt Ord, 1979) Act, 2013Brings back 1979 law under rival pressure of nationalists
19 August 2013Sindh High Density Development Board (Amendment) Act, 2013Sets up a Sindh High Density Development Board
19 August 2013Sindh Local Govt Act, 2013Brings in the local govt system the PPP likes
19 September 2013Lyari Development Authority (Revival & Amending) Act, 2013Revives it
19 September 2013Malir Development Authority (Revival & Amending) Act, 2013Revives it
31 October 2013Sindh Local Govt (Amendment) Act, 2013Deletes Town & Master Planning, building control powers
7 February 2014Sindh Building Control (Amendment) Act, 2014Revives 1979 law and adds town planning to it and master plan
10 February 2014Sindh Solid Waste Management Board Act, 2014Set up a solid waste management board
24 February 2014Sindh Environmental Protection Act, 2014Sets up an environment protection agency
20 October 2014Sindh Local Govt (Amendment) Act, 2014Makes election rules clearer
24 February 2015Sindh Local Govt (Amendment) Act, 2015Changes and details administrative units
8 May 2015Sindh Local Govt (Second Amendment) Act, 2015Goes into detail on town committees
12 August 2015Karachi Water and Sewerage Board (Amendment) Act, 2015Amends Karachi Water and Sewerage Board Act,1996, adds punishments
12 August 2015Sindh Local Govt (Third Amendment) Act, 2015Specifies youth and women in union committees
19 January 2016Sindh Local Govt (Amendment) Act, 2016Changes secret ballot to show of hands
21 March 2016Karachi Development Authority (Revival and Amending) Act, 2016Revives 1957 law
26 April 2016Sindh Local Govt (Second Amendment) Act, 2016Change in election details
27 April 2016Sindh Local Govt (Third Amendment) Act, 2016Adds supervision instructions and allows municipalities to get big businesses to adopt parks
27 April 2016Sindh Local Govt (Fourth Amendment) Act, 2016Goes into member details
29 September 2016Sindh Mass Transit Authority Act, 2014Sets up mass transit authority
6 March 2017Sindh Local Govt (Amendment) Act, 2017Clarifies vice chairman detail
8 March 2017Sindh Food Authority Act, 2016Sets up food authority
30 April 2018Karachi Development Authority (Sindh Amendment) Act, 2018Allows amenity plot conversion for mass transit
7 February 2019Sindh Local Govt (Second Amendment) Act, 2019Adds secretary, local govt

سال 2013 کا قانون بنیاد پرست تھا کیونکہ اس کے ذریعے مشرف کے لائے گئے نظام کا خاتمہ کرکے وہ نظام لایا گیا جو پیپلز پارٹی چاہتی تھی ( یہ نظام 1979 کے کمشنری نظام پر مبنی تھا)۔ اگست میں لائے جانے والے اس نظام میں اکتوبرتک تبدیلیاں شروع کردی گئیں۔
سب سے اہم تبدیلی یہ تھی کہ کراچی کی ماسٹر پلاننگ کے ایم سی سے لے لی جائے۔
اکتوبرمیں کی جانے والی تبدیلیوں میں صفحہ نمبر7 پربمشکل ڈیڑھ سطریں ہیں جو کہتی ہیں کہ قانون کے سابقہ ورژن میں سے شق نمبر 32 خارج کردی گئی ہے۔ 2013 کے قانون میں یہ شق ٹاؤن پلاننگ اور بلڈنگ کنٹرول سے متعلق تھی۔
اگلا کام ان اختیارات کو تازہ کرنا تھا کہ کراچی میں کون کیا تعمیرکرے گا۔ لہذا 2014 تک شق نمبر 32 جو 1979 کے قانون کے تحت بلڈنگ کنٹرول سے متعلق تھی ، اسے نام بدل کر سندھ بلڈنگ کنٹرول (ترمیمی) ایکٹ کیا گیا۔ یہ چال ہے کہ سندھ حکومت نے سالہا سال سے کراچی کو چلانے والے بڑے اداروں کے اختیارات کس طرح منتقل کیے۔
اس کے علاوہ سندھ حکومت نےچالاکی کے ساتھ خود کو یہ اختیار دیا کہ وہ کسی بھی شہر کے اختیارات سنبھال سکے (سیکشن 74)۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بلدیاتی انتخابات سے کیلئے آگاہ کرنے کی تاریخ گزرجانے کیلئے
خاموشی سے ایک اور تبدیلی کی گئی۔ یہ 30 دن سے بڑھ کر ڈھائی اور پھر 6 ماہ تک چلی گئی اور پھر ایسا ہوا کہ جب حکومت کو بلدیاتی انتخابات کی ضرورت محسوس ہو۔ ( یقیننا یہاں ٹھوس سیاسی جواز موجود ہیں لیکن اعدادوشمار دیکھیں تو سال 2009 سے 2015 تک کوئی انتخابات نہیں ہوئے ) اس بات میں کوئی تعجب نہیں کہ پی پی حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے اور میئرمنتخب کرنے کے بجائے شہرکوغیرمنتخب ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے چلایا۔
سال 2015 میں ہونےوالے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیوایم نے فتح حاصل کی، لیکن اس وقت تک پیپلز پارٹی قانونی طور پر کے ایم سی کے اختیارات اتنے کم کرچکی تھی کہ میئر کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی رہ گئی تھی۔
دوسری جانب پی پی حکومت ڈسٹرکٹ میونسل کارپوریشنز ( غربی، شرقی، وسطی، جنوبی، کورنگی ، ملیر ) کو زیادہ اختیارات دیتی رہی – وہ پراپرٹی ٹیکس ِ ٹولز، پیشوں پر ٹیکس، مارکیٹس، پیدائش پر فیس ، شادیوں، گود لینے اور تقریبات، بل بورڈز، سینماز اورگاڑیوں پر بھی ٹیکس جمع کر سکتی تھیں۔
میئر وسیم اختر 2016 میں دفتر آنے کے بعد سے ہی اس بارے میں کھل کر بات کررہے ہیں۔ ان کے آفس میں رکھی فائلوں کے ساتھ وزیراعلیٰ سندھ کو لکھے گئے تمام خطوط کی فوٹوکاپیاں موجود ہیں۔ ہر اہم خط کے بعد ایک اور اہم خط جن میں نشاندہی کی گئی ہے کہ میئرآفس کے اختیارات چھین لیے گئے ہیں۔ ایک خط میں تو بیچارگی سے یہ تک لکھا گیا ہے کہ میئر کے آدمیوں کو آنسو گوٹھ میں گائے پر فیس تک وصول کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
وسیم اختر نے ٹیکس سے متعلق ایک فہرست مرتب کی کہ وہ کیا وصول نہیں کرسکتے کیونکہ ایسا کرنے کے اختیارات کسی اور کو دے دیے گئے۔ وہ کنزروینسی ٹیکس بھی جمع نہیں کرسکتے کیونکہ یہ اب نئے ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کے زیر انتظام ہے۔ نکاسی آب ٹیکس ؟ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے پاس ہے۔ جانوروں کو ذبح کرنے کی فیس؟ ان کا جواب بے ساختہ تھا کہ اس سے کچھ نہیں ملے گا۔ کیا آپ جانوروں کو ذبح کرنے یا چڑیا گھر میں انٹری سے ملنے والی فیس سے کراچی کو چلا سکتے ہیں؟۔
پلاٹ کے تبادلوں پرفیس سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جمع کرتی ہے۔ کے ایم سی کے زیرملکیت والی زمین پر مارکیٹیں لگانے کے لئے فیس کون لیتا ہے؟ پوچھنے پر میئر کراچی ایک بار پھرہاتھ جھاڑتے ہوئے بولے کہ جب ہمارے پاس 10 کروڑ روپے کم ہوں تو آپ مجھ سے کے ایم سی کو ایک دکان کے کرایے پرچلانے کی توقع رکھتی ہیں؟۔
ان کی تشبیہات قدرے ڈرامائی ہیں۔ انہیں اور سٹی گورنمنٹ کے دیگر بیوروکریٹس کو “جھاڑو دینا” جیسے محاوروں تک محدود کردیا گیا ہے۔ وہ سڑکوں اور پلوں پر ٹول جمع نہیں کرسکتے کیونکہ یہ اختیارحکومت سندھ کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے پاس ہے۔
میئر کا کہنا تھا ، میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وزیراعلیٰ نے بیان دیا کہ ہمیں اپنے محکمہ سے محصول وصول کرنا چاہیے۔ اس پرمیں نے انہیں 2 چیزیں بتائیں۔ ایک ایس جی ایل اے 2013 کے مطابق جو محکمے مجھے دیے گئے ہیں وہ سب میرے ساتھ ہیں۔ وہ میرے ساتھ نہیں ہیں، ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ آپ انہیں لے چکے ہیں۔ اب آپ کا یہ نقطہ کہ مجھے ریونیو پیدا کرنا چاہیے، تو شاید وزیراعلیٰ مجھے خود بتاسکیں کہ میں کس محکمے سے سے ریونیو وصول کرسکتا ہوں؟۔
اورمیئرکے احتجاج پروزیراعلیٰ کا کیا ردعمل ہے؟وہ چیف ایگزیکٹو ہیں۔ اس بات کے جواب میں وسیم اختر نےکہا کہ انہوں نے کیا کہنا ہے ، وہ مالیات کے آدمی ہیں۔درحقیقت کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ریاضی نہیں سمجھتے۔ آخرکار وہ وزیراعلیٰ بننے سے پہلے سندھ کے وزیرخزانہ تھے ۔
وزیربلدیات نے اس حوالے سے کیا کیا؟ کیا سندھ حکومت کے ایم سی کو تنخواہوں کی ادائیگی سے خوش تھی ؟ پیپلز پارٹی کو کے ایم سی سے اختیارات کیوں واپس لینے پڑے؟
جواب میں سعید غنی کا ردعمل سخت تھا: ” وہ کبھی کے ایم سی کا حصہ نہیں تھے”۔ بلڈنگ کنٹرول کبھی کے ایم سی کا حصہ نہیں تھی۔ دفاتر کے ماسٹر پلان گروپس بھی کبھی کے ایم سی کا حصہ نہیں تھے۔
واٹر بورڈ کے حوالے سے بھی یہی نقطہ اٹھایا گیا۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج سال 1996 کے قانون کے تحت کام کررہا ہے جس کے مطابق سندھ حکومت ( میئر نہیں ) کو چلانے کیلئے کسی بھی شخص کی تعیناتی کا اختیار رکھتی ہے جو کہ میئر بھی ہوسکتا ہے۔ جب مصطفیٰ کمال میئر تھے تو انہوں نے حقیقتا کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو چلایا۔ اب سندھ حکومت کے پاس اسے چلانے کیلئے بلدیاتی وزیرہے۔
سعید غنی کا کہنا ہے کہ کچرا اٹھانا کبھی بھی میئر کے فرائض میں شامل نہیں تھا۔ کچرا اٹھانا اور جھاڑو لگانا شہرکی 6 ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کی ڈیوٹی ہے اور یہ کے ایم سی کا کام ہے کہ وہ نالے صاف کرے۔ کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنا اور جھاڑو پھیلانا چھ ڈی ایم سی کا کام تھا اور نالوں کو صاف کرنا کے ایم سی کا کام تھا۔ وزیر اعلیٰ کے کہنے پر مالی بحران کے باوجود سندھ حکومت کے ایم سی کو نالوں کی صفائی کے لئے 55 کروڑ روپے دے چکی ہے۔
سعید غنی کے کہنے کا مطلب ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے سٹی گورنمنٹ کے اختیارات 2001 سے پہلے
کے ایم سی کا حصہ نہیں تھے۔ پرویز مشرف سے پہلے ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا حصہ تھا۔ اس لیے پیپلزپارٹی کو یقین ہے کہ مشرف اور ایم کیو ایم کی دہائی میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے پاس تمام اختیارات ہونا ایک گمراہی تھے جو کے ایم سی کی جانب سے ایک ڈکٹیٹر کی حمایت کے ساتھ ممکن بنایا گیا۔ اصل لوکل گورنمنٹ وہی ہے جس کی بنیاد 1979 کے قانون کے تحت رکھی گئی اور سال 2013 میں اسے نئی شکل دی گئی۔
سعید غنی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سندھ حکومت نے کے ایم سی سے مقامی ٹیکسز (بل بورڈ نیلامی) ، اسکول اور صحت ( سوائے کچھ بڑے اسپتالوں کے) لے لیا لیکن انہوں نے اضافہ کیا کہ ” یہ ہم نے نہ تو لیے ہیں اور نہ ہی اپنے پاس رکھے ہیں”۔ یہ سب 6 ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کے پاس ہیں جو مقامی حکومت کا اتنا ہی حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اختیارات کی منتقلی ہے۔ آپ ان چیزوں کو منتقل کرتے ہیں۔ 6 ڈی ایم سیزمیں سے 4 ایم کیو ایم کے پاس ہیں۔
میئر کراچی اس بات سے انکاری ہیں کہ اسے اختیارات کی منتقلی کہا جاسکتا ہے۔ وہ اور ایم کیو ایم اس بات کو طاقت کے مرکز کے طور پر دیکھتے ہیں نہ کہ اختیارات کی منتقلی کے۔ انہوں نے نقطہ اٹھایا کہ اگر آپ کے ایم سی سے محکمے اور اختیارات دور رکھتے ہیں اور انہیں صوبائی حکومت کے زیر انتظام لوکل گورنمنٹ کے ماتحت رکھتے ہیں تو یہ طاقت کا مرکز ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آپ نے اختیارات حکومت کو نچلی سطح پر منتقل کردیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کیسی منتقلی؟ یہ اختیارات کی منتقلی نہیں ہے، انہوں نے تمام محکمے اپنے پاس واپس لے لیے ہیں۔ ان کے پاس پانی ، سیوریج ، بلڈنگ کنٹرول، ماسٹر پلان، ٹرانسپورٹ ہے تو پھر اختیارات کی منتقلی کیسی؟۔
لوکل گورنمنٹ سے متعلق چند ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا۔ ڈاکٹر نیاز احمد اور ڈاکٹر سعید احمد رد نے 2017 کی ایک تحریر میں اس سوال کا خلاصہ کیا۔ “شہری حکومت کے بہت سے اہم امور 2013 کے نظام میں صوبے کو دوبارہ تفویض کردیے گئے”۔
ٹائم لائن: مقامی حکومتوں کے خدو خال
سال 1958: ایوب خان کا فوجی دور حکومت جس میں کوئی قومی یا صوبائی حکومت نہیں تھی۔
سال 1959: بنیادی جمہوری آرڈر 1959 کے تحت پہلی بار دیہی حکومتیں تشکیل دی گئیں۔
سال 1960: میونسپل ایڈمنسٹریشن آرڈیننس 1960 کے تحت شہری میونسپل کارپوریشنز کی تشکیل۔
سال 1969: ایوب حکومت کے خاتمے کے بعد نظام ختم ہوگیا۔
سال 1971: ذوالفقارعلی بھٹومنتخب ہوئے، جمہوریت بحال ہوئی ، بنیادی جمہوریتیں ختم کردی گئیں۔
سال 1973: نیا آئین مقامی حکومتوں کو صوبائی ذمہ داری بناتا ہے۔ سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1972 میں بنایا گیا۔
سال 1978-1972 : لوکل گورنمنٹ انتخابات نہیں ہوئے۔
سال 1977: ذوالفقارعلی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
سال 1988-1977: ضیاء الحق کی فوجی آمریت، چاروں صوبوں کیلئے یکساں بلدیاتی قوانین
سال 1979: سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس نافذ ہوا، انتخابات کے بعد عبدالستارافغانی میئر بنے۔
سال 1983 : بلدیاتی انتخابات کے بعد عبد الستار افغانی دوسری بار میئر منتخب ہوئے۔
سال 1987: بلدیاتی انتخابات میں فارق ستارشہر کے میئر منتخب ہوئے۔
سال 1988-1990: بطور وزیراعظم بے نظیربھٹو کا پہلا دور حکومت، بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں ہوا۔
سال 1993-1990: بطور وزیراعظم نواز شریف کا پہلا دور، بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔
سال 1996-1993: بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کا دوسرا دور، بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔
 سال 1999-1997: بطور وزیراعظم نوازشریف کا دوسرا دور، بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔

Publish In Samaa 19 September 2019

Post a Comment

Previous Post Next Post